تفسير ابن كثير



سورۃ المائده

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِي وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُبِينٌ[110] وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِي قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ[111]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جب اللہ کہے گا اے عیسیٰ ابن مریم! اپنے اوپر اور اپنی والدہ پر میری نعمت یاد کر، جب میں نے روح پاک سے تیری مدد کی، تو گود میں اور ادھیڑ عمر میں لوگوں سے باتیں کرتا تھا اور جب میں نے تجھے کتاب اور حکمت اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تو مٹی سے پرندے کی شکل کی مانند میرے حکم سے بناتا تھا، پھر تو اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے ایک پرندہ بن جاتی تھی اور تو پیدائشی اندھے اور برص والے کو میرے حکم سے تندرست کرتا تھا اور جب تو مردوں کو میرے حکم سے نکال کھڑا کرتا تھا اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھ سے روکا، جب تو ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آیا تو ان میں سے ان لوگوں نے کہا جنہوں نے کفر کیا، یہ تو کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔ [110] اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ، انھوں نے کہا ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم فرماں بردار ہیں۔ [111]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرا انعام یاد کرو جو تم پر اور تمہاری والده پر ہوا ہے، جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی۔ تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تم میرے حکم سے گارے سے ایک شکل بناتے تھے جیسے پرنده کی شکل ہوتی ہے پھر تم اس کے اندر پھونک مار دیتے تھے جس سے وه پرند بن جاتا تھا میرے حکم سے اور تم اچھا کر دیتے تھے مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو میرے حکم سے اور جب کہ تم مردوں کو نکال کر کھڑا کرلیتے تھے میرے حکم سے اور جب کہ میں نے بنی اسرائیل کو تم سے باز رکھا جب تم ان کے پاس دلیلیں لے کر آئے تھے پھر ان میں جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ بجز کھلے جادو کے یہ اور کچھ بھی نہیں [110] اور جب کہ میں نے حواریین کو حکم دیا کہ تم مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان ﻻؤ، انہوں نے کہا کہ ہم ایمان ﻻئے اور آپ شاہد رہیئے کہ ہم پورے فرماں بردار ہیں [111]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب خدا (عیسیٰ سے) فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! میرے ان احسانوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کئے جب میں نے روح القدس (یعنی جبرئیل) سے تمہاری مدد کی تم جھولے میں اور جوان ہو کر (ایک ہی نسق پر) لوگوں سے گفتگو کرتے تھے اور جب میں نے تم کو کتاب اور دانائی اور تورات اور انجیل سکھائی اور جب تم میرے حکم سے مٹی کا جانور بنا کر اس میں پھونک مار دیتے تھے تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتا تھا اور مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو میرے حکم سے چنگا کر دیتے تھے اور مردے کو میرے حکم سے (زندہ کرکے قبر سے) نکال کھڑا کرتے تھے اور جب میں نے بنی اسرائیل (کے ہاتھوں) کو تم سے روک دیا جب تم ان کے پاس کھلے نشان لے کر آئے تو جو ان میں سے کافر تھے کہنے لگے کہ یہ صریح جادو ہے [110] اور جب میں نے حواریوں کی طرف حکم بھیجا کہ مجھ پر اور میرے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ کہنے لگے کہ (پروردگار) ہم ایمان لائے تو شاہد رہیو کہ ہم فرمانبردار ہیں [111]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 110، 111،

عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات ٭٭

جناب مسیح علیہ الصلوۃ والسلام پر جو احسانات تھے انکا اور آپکے معجزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ بغیر باپ کے صرف ماں سے آپ علیہ السلام کو پیدا کیا اور اپنی کمال قدرت کا نشان آپ علیہ السلام کو بنایا۔ پھر آپ علیہ السلام کی والدہ پر احسان کیا کہ ان کی برأت اسی بچے کے منہ سے کرائی اور جس برائی کی نسبت ان کی طرف بے ہودہ لوگ کر رہے تھے اللہ نے آج کے پیدا شدہ بچے کی زبان سے ان کی پاک دامنی کی شہادت اپنی قدرت سے دلوائی، جبرائیل علیہ السلام کو اپنے نبی علیہ السلام کی تائید پر مقرر کر دیا۔

بچپن میں اور بڑی عمر میں انہیں اپنی دعوت دینے والا بنایا گیا، گہوارے میں ہی بولنے کی طاقت عطا فرمائی، اپنی والدہ محترمہ کی برات ظاہر کر کے اللہ کی عبودیت کا اقرر کیا اور اپنی رسالت کی طرف لوگوں کو بلایا۔
2500

مراد کلام کرنے سے اللہ کی طرف بلانا ہے ورنہ بڑی عمر میں کلام کرنا کوئی خاص بات یا تعجب کی چیز نہیں۔ لکھنا اور سمجھنا آپ کو سکھایا۔ تورات جو کلیم اللہ علیہ السلام پر اتری تھی اور انجیل جو آپ پر نازل ہوئی دونوں کا علم آپ کو سکھایا۔ آپ علیہ السلام مٹی سے پرند کی صورت بناتے پھر اس میں دم کر دیتے تو وہ اللہ کے حکم سے چڑیا بن کر اڑ جاتا، اندھوں اور کوڑھیوں کے بھلا چنگا کرنے کی پوری تفسیر سورۃ آل عمران میں گزر چکی ہے، مردوں کو آپ علیہ السلام بلاتے تو وہ بحکم الٰہی زندہ ہو کر اپنی قبروں سے اٹھ کر آ جاتے۔

ابو ہذیل فرماتے ہیں جب عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کسی مردے کے زندہ کرنے کا ارادہ کرتے تو دو رکعت نماز ادا کرتے پہلی میں سورۃ تبارک «تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ» [67-الملک] ‏‏‏‏ اور دوسری میں سورۃ «الم تَنزِيلُ الْكِتَابِ» [32-السجدہ] ‏‏‏‏ پڑھتے پھر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پڑھتے اور اس کے سات نام لیتے جو یہ ہیں «يَا قَدِيمُ، يَا خَفِيُّ، يَا دَائِمُ، يَا فَرْدُ، يَا وَتْرُ، يَا أَحَدُ، يَا صَمَدُ» پھر آپ علیہ السلام کو کوئی سختی پہنچتی تو اللہ تعالیٰ کے سات نام اور لیتے «يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ»، «یا اللہُ»، «یا رَّحْمَـٰن» ‏‏‏‏، «یا رَّحِيم»، «یا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ»، «یا نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا بَیْنَھُمَا وَرَبّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ یارَبّ» ‏‏‏‏۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:1241/4] ‏‏‏‏ یہ اثر بڑا زبردست اور عظمت والا ہے۔

” اور میرے اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم دلائل و براہیں لے کر اپنی امت کے پاس آئے اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے اسے جادو بتایا اور درپے آزار ہوئے تو ان کے شر سے میں نے تمہیں بچا لیا، انہوں نے قتل کرنا چاہا، سولی دینا چاہی، لیکن میں ہمیشہ تیرا کفیل و حفیظ رہا “۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ احسان آپ علیہ السلام کے آسمان پر چڑھا لینے کے بعد کے ہیں یا یہ کہ یہ خطاب آپ علیہ السلام سے بروز قیامت ہوگا اور ماضی کے صیغہ سے اس کا بیان اس کے پختہ اور یقینی ہونے کے سبب ہے۔ یہ غیبی اسرار میں سے ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع فرما دیا۔
2501

پھر اپنا ایک اور احسان بتایا کہ ” میں نے تیرے مددگار اور ساتھی بنا دیئے، حواریوں کے دل میں الہام اور القا کیا “۔

یہاں بھی لفظ وحی کا اطلاق ویسا ہی ہے جیسا ام موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہے اور شہد کی مکھی کے بارے میں ہے۔ انہوں نے الہام رب پر عمل کیا، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ میں نے تیری زبانی ان تک اپنی وحی پہنچائی اور انہیں قبولیت کی توفیق دی، تو انہوں نے مان لیا اور کہہ دیا کہ ہم تو مسلمین یعنی تابع فرمان اور فرماں بردار ہیں۔
2502



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.